Waseem khan

Add To collaction

01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 13

آں چست
از روز میری 
قسط نمبر13

"راضیہ بیگم حویلی کے باہر خون کے دھبے ہیں' سب خیریت تو ہے؟ کیا ہوا ہے؟"۔    سمعان صاحب ہال میں آ کر پوچھنے لگے۔
"جی وہ احد کے کندھے پہ گملا گرنے کی وجہ سے چوٹ آئی ہے تو مشائم اور شہریار اسے لے کر ہوسپٹل گئے ہیں"۔    راضیہ بیگم جو بےچینی میں چہل قدمی کر رہیں تھیں' نے اپنے قدم روکے۔
"سب ٹھیک تو ہے؟ زیادہ چوٹ تو نہیں آئی احد کو؟"۔   سمعان صاحب بھی بے قرار ہوگئے تھے۔
"پتہ نہیں جی میری ابھی ان سے بات نہیں ہوئی"۔    راضیہ بیگم نے نفی کی۔
"چلیں میں دیکھتا ہوں آپ پریشان مت ہوں"۔   سمعان صاحب نے بولتے ہی پینٹ کی پاکٹ سے فون نکال کر شہریار کا نمبر ڈائل کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
 "کیا ہوا ہے شہریار؟ سب خیر خیریت ہے نا؟؟زیادہ گہری چوٹ تو نہیں آئی احد کو؟"۔  
شہریار احد کے ہم قدم سیڑھیاں چڑھ کر احد کے روم میں پہنچا تب راضیہ بیگم احد کے روم داخل ہو کر کہنے لگیں۔
"پریشانی والی بات نہیں ہے ماما' آپ پریشان نا ہوئیں معمولی چوٹ ہے۔ انشاءاللہ جلد ٹھیک ہو جائے گی"۔    شہریار نے راضیہ بیگم کو پرسکون کرتے کہا۔
احد نے بیڈ پہ بیٹھتے تاج سے ٹیک لگائی ۔۔۔ مشائم اسکے مقابل پائینتی والی سائیڈ پہ کھڑی تھی جبکہ حرا، شہریار اور راضیہ بیگم اسکے بائیں جانب کھڑے تھے۔
"میں احد کے لیئے ہلدی والا دودھ لے کر آتی ہوں"۔    راضیہ بیگم روم سے نکل گئیں۔
"مشو کھڑی کیوں ہو بیٹھ جاو"۔    مشائم کا اترا ہوا چہرہ دیکھتے احد نے ہولے سے کہا پھر جبرا مسکرا دیا تاکہ مشائم اسے دیکھ کر مزید پریشان نا ہو۔
"سبحان اللہ یہاں بھائی اور بھابی بھی کھڑے ہیں مگر' خیر ہے' چلتا ہے' اب تو ایسا ہی چلے گا"۔    شہریار نے بناوٹی ناراضگی سے کہا۔
"بھائی آپ بھی نا"۔    شہریار کی طرف دیکھتے احد ہنس دیا۔   "آپ لوگ بھی بیٹھ جائیں کھڑے نا ہوں"۔    حرا اور شہریار کی طرف دیکھتے احد نے کہا۔
"مذاق کر رہا ہوں احد' ہم تمھارے پاس نہیں بیٹھ رہے تم ایسا کرو کہ آرام کر لو"۔   شہریار نے ہدایت کی۔
"جی بھائی"۔    احد نے تائید کی۔
"چلو حرا"۔    حرا کو مخاطب کرتے شہریار روم سے نکل گیا تھا۔
"احد اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو مجھے بتا دینا"۔    احد کو باور کراتے حرا بھی روم سے نکل گئی تھی۔
"تھوڑا سا زخم ہے مشی جلدی ٹھیک ہو جائے گا' تم فکر مند نا ہو"۔   حرا کے جاتے ہی احد سیدھا ہوا۔
"تمھیں ٹھیک دیکھوں گی تو میں بھی ٹھیک ہو جاوں گی احد"۔    مشائم نے ہولے سے کہا۔
"میں ٹھیک ہوں' ٹرسٹ می"۔    احد نے متبسم انداز میں کہا۔
"دکھاوے کی ہنسی دکھا کر آپ کسی کو بیوقوف نہیں بنا سکتے"۔   مشائم نے خفگی سے کہا۔
"اگر آپکی بناوٹی ہنسی کسی کیلیئے خوشی کا باعث بنے تو میرا نہیں خیال کہ اس میں کوئی حرج ہے۔ اچھا میرے پاس آ کے بیٹھو تو صحیح"۔    بولتے ہی احد نے ہاتھ آگے بڑھایا جسے مشائم نے کچھ لمحوں کی تاخیر سے تھام لیا۔
"اب اپنا موڈ سیٹ کرو تمھیں یوں مرجھایا ہوا دیکھ کر میرا دل بھی جلے گا' ہاں"۔    مشائم کو اپنے سامنے بٹھاتے احد نے کہا۔
"احد بیٹا جلدی سے یہ دودھ پی لو"۔   راضیہ بیگم ہاتھ میں دودھ کا گلاس لیئے روم میں داخل ہوئی۔
"ماما یار یہ کیا ہے بھئی؟؟"۔    دودھ کے نام سے ہی چڑ جانے والا آج پینے کے نام پہ تپ گیا تھا۔
"بیٹا یہ تمھارے زخم کیلیئے بہت مفید ہے"۔   راضیہ بیگم نے گلاس سائیڈ ٹیبل پہ رکھا۔
"ماما پلیز مجھے نہیں پینا آپ اچھے سے جانتی ہیں مجھے دودھ پسند نہیں ہے' پینا تو دور کی بات ہے"۔   احد نے غصے میں کہا۔
"ٹھیک ہے آنٹی میں چلتی ہوں"۔    کچھ پل احد کو بغور دیکھتے مشائم بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"تم کہاں جا رہی ہو؟؟"۔    احد متحیر ہوا۔
"گھر"۔    مشائم نے منہ پھیر کر ہنسی دبائی۔
"مگر کیوں یار مشو' میرے پاس بیٹھو بس تم ابھی نہیں جا رہی"۔   احد نے حتمی فیصلہ سنایا۔
"اچھا' اگر تم چاہتے ہو کہ میں یہاں رکوں تو جلدی سے گلاس ختم کرو"۔    احد کی جانب گھومتے مشائم نے سینے پہ ہاتھ لپیٹے۔
مشائم کے ساتھ روا رکھا گیا رویہ احد کو یاد آیا۔
"میری بلی مجھ ہی کو میاوں"۔    
جی"۔    مشائم نے اثبات میں سر ہلایا۔
احد نے مجبورا گلاس اٹھا کر ہونٹوں تک بڑھایا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
گھڑی کی چھوٹی سوئی دو پر تھی جبکہ بڑی بارہ پہ' کروٹ بدلتے وقت احد کے شانے میں درد کی ٹیس اٹھی جس پہ وہ کراہنے لگا تھا۔
درد کی شدت کے باعث اسکی آنکھوں سے آنسوؤں رواں ہوئے جس پہ اسنے جھٹ سے آنکھیں کھولیں۔۔۔ سائیڈ ٹیبل پہ'بائیں طرف لیمپ آن تھا جسکی مدھم روشنی میں اسکا چہرہ خوفناک لگ رہا تھا۔۔۔ خود کو بمشکل سہارا دیتے احد اٹھ بیٹھا ۔۔۔ پھر سائیڈ ٹیبل سے پانی کا رکھا گلاس اٹھا کر دو گھونٹ سے حلق تر کرتے گلاس دوبارہ سے جگہ پہ رکھا۔
آنسوؤں کو صاف کرتے احد نے بیڈ کے تاج سے ٹیک لگا لی۔
کھڑکی کے پٹ زوردار آواز سے کھلنے کے بعد احد کو اپنے قریب ہوا کی سرسراہٹ محسوس ہوئی۔
"تماشا دیکھنے آئی ہو؟"۔    بولتے ہی احد نے طنزیہ قہقہ لگایا۔
درد کی شدت اسکے چہرے پہ آشکار تھی جو اسکی بناوٹی ہنسی میں با آسانی محسوس کی جا سکتی تھی۔
"تمھیں کس نے کہا تھا کہ اس اوباش لڑکی کو دھکا دے کر خود پہ اذیت کو دعوت دو؟"۔    گپت آواز دھاڑی تھی۔
"وہ میری بھابی ہیں انہیں بچانا میرا فرض تھا'تم اپنی حرکتوں سے کب باز آو گی؟"۔     احد نے غصے میں کہا۔
"جب تک تم انسان میری بات نہیں مان لیتے"۔    
"میرا دماغ نا خراب کرو' میں پہلے ہی تمھاری وجہ سے بہت تکلیف میں ہوں لیکن تم جنوں بھوتوں کو اس سے کیا؟ تم لوگ تو بس جینا حرام کرنے کیلیئے ہی ہو"۔   احد نے مزید چڑ کر کہا۔
"جینا تو تم نے بھی میرا حرام کر کے رکھا ہے"۔   غیبی صدا نے عتاب میں جواب دیا۔
"او ہیلو میں نے تم پہ یا تمھارے خاندان کے کسی فرد پہ یوں گملا نہیں پھینکا'آہ"۔    احد کا خون کھولا مگر درد نے زور پکڑا تو احد کی چیخ نکلی۔
"کیا زیادہ تکلیف ہے؟؟"۔    رحم دلی سے پوچھا گیا۔
"نہیں میرے تو مزے ہیں کہ پارک میں بیٹھا ہوں"۔    احد نے سر جھٹکا۔
ہوا کا جھکولا اسکے شانے کے پاس سے یوں گزرا جیسے کسی نے ہاتھ پھیرا ہو۔۔۔ اسکے فورا بعد ہی احد کا درد چھو منتر ہوا۔
"شب بخیر"۔    اسکے ساتھ ہی گپت قوت احد کے روم سے نکل گئی۔
احد نے اپنا کندھا ہلایا اور حیرانگی سے اسکی آنکھیں ابھر آئیں۔۔۔ اب اسکے شانے میں درد کی رمق تک باقی نا تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
واچ مین نے گیٹ کھولا تو حمزہ نے اپنا بائیک پورچ میں پارک کیا' بائیک سے اتر کر حمزہ جونہی انٹرنس کی جانب بڑھتی راہداری پہ قدم رکھنے لگا اسکی نظر بائیں جانب جم میں گئی جہاں احد ایکسرسائز کر رہا تھا۔
حمزہ احد کو معمول پہ ایکسرسائز کرتا دیکھ چونک اٹھا تھا کیونکہ گزشتہ روز اسے باخبر کیا گیا تھا کہ احد کے شانے پہ چوٹ آئی ہے جسکی تکلیف کی شدت زیادہ ہے۔
"احد"۔    فاصلہ طے کرتے حمزہ احد کے قریب آیا۔
"ارے حمزی سنا کیسا ہے؟؟"۔    حمزہ کی آواز پہ احد اس طرف گھوما۔
"میں ٹھیک ہوں لیکن تو' تیرے تو کندھے پہ چوٹ آئی ہے نا؟ اور تو جم میں' مطلب کیا واقعی تجھے چوٹ آئی ہے؟"۔    متحیر آنکھیں احد پہ ٹکائے حمزہ نے کنفرم کیا۔
"ہاں آئی ہے مجھے چوٹ مگر' اب درد نہیں ہے"۔    احد مسکرا دیا۔
"آر یو کریزی؟ مطلب چوٹ تھی یا مذاق؟ اتنی جلدی ٹھیک کیسے ہو گئی؟"۔   حمزہ دنگ رہ گیا۔
"یار حمزہ تجھے پریشانی کس بات کی ہے' چوٹ ٹھیک ہونے کی؟ یا میرے؟"۔   احد نے بات کو گول کرنے کی کوشش کی۔
"احد' حمزہ تم لوگ یہاں؟"۔   احد اور حمزہ کو جم میں کھڑا دیکھ شہریار بھی اس طرف آیا۔
"اسلام و علیکم شہریار بھائی"۔    حمزہ شہریار کی جانب متوجہ ہوا۔
"وعیلکم اسلام حمزہ سناو کیسے ہو؟"۔    شہریار نے خوش کن انداز میں کہا۔
"میں ٹھیک ہوں بھائی آپ سنائیں؟"۔    
"فٹ فاٹ' یہاں کیا کر رہے ہو تم دونوں؟"۔    
"شیری بھائی احد کی چوٹ کا پوچھنے آیا تھا لیکن احد کو یہاں دیکھ کر اس کے پاس چلا آیا' ایسا لگ رہا ہے کہ احد کو چوٹ آئی ہی نہیں"۔    حمزہ نے احد کی طرف دیکھا جو فکرمند کھڑا تھا۔
"احد یہ میں کیا سن رہا ہوں' تم یہاں ایکسرسائز کر رہے تھے؟"۔    شہریار نے تفتیشی انداز میں کہا۔
"جی بھائی"۔    احد نے دو حرفی کہا۔
"مگر کیوں؟ تم جانتے بھی ہو کہ ہم نے ماما پاپا سے جھوٹ بولا ہے' تمھاری چوٹ بگڑ بھی سکتی ہے احد' تم لاپرواہی کیوں برت رہے ہو؟"۔    شہریار نے غصے میں کہا۔
"میں سچ بول رہا ہوں بھائی اب مجھے درد نہیں۔۔۔"۔    احد نے چڑ کر شہریار کو قائل کرتے زبان کر حرکت دی لیکن خیال آتے ہی رک گیا۔   "اگر بھائی کو چوٹ دکھا دی تو بھائی کو شک ہو جائے گا پھر ہزار طرح کے سوالات کریں گے"۔    
"احد میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں"۔    شہریار نے بات پہ زور دیا۔
"سوری بھائی"۔   احد نے سر جھکا لیا۔
حمزہ ششدر احد کو دیکھنے لگا۔
"چلو اب روم میں چل کر آرام کرو"۔    سختی سے سرزنش کرتے شہریار وہاں سے چل نکلا۔
"چل اب کھڑا کیا ہے؟"۔    احد کو سوچ میں ڈوبا دیکھ حمزہ نے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"اماں' چائے"۔     راضیہ بیگم چائے کی ٹرے لیئے نگینہ بیگم کے روم میں داخل ہوئی۔    "کیا ہوا اماں؟ آپ فکرمند سی لگ رہی ہیں؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟"۔    جواب موصول نا ہونے پہ راضیہ بیگم' نگینہ بیگم کے سامنے بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگیں۔
"راضیہ میں ایک بات سوچ رہی تھی"۔    سوچ کی وادی سے واپسی پہ نگینہ بیگم نے کہا۔
"کیا بات ہے اماں سب خیریت ہے؟"۔    راضیہ بیگم فکرمند ہوئیں۔
"راضیہ میں یہ سوچ رہی ہوں کہ احد پہ گملا گرا کیسے؟"۔   
"اماں اس میں پریشان ہونےوالی کونسی بات ہے؟ ہوا سے گر گیا ہوگا"۔    راضیہ بیگم نے اندازہ لگایا۔
"ہوا؟ پہلے تو طوفان بھی آتے رہے ہیں مگر ایسا حادثہ نہیں ہوا اور راضیہ کل ہوا کہاں تھی؟"۔    نگینہ بیگم نے تفصیلا کہا۔
"اماں آپ بھی کیا سوچنے لگیں"۔    راضیہ بیگم نے چائے کی پیالی نگینہ بیگم کی طرف بڑھائی۔  "اماں باقی سب چھوڑیں' چائے پیئیں"۔   
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ڈنر کی غرض سے سمعان صاحب اور انکی فیملی ڈائننگ ٹیبل پہ براجمان تھی۔
"احد بیٹا اب تمھاری چوٹ کیسی ہے؟"۔     سمعان صاحب نے اپنے دائیں جانب راضیہ بیگم کے برابر بیٹھے احد کو مخاطب کیا۔
"پاپا اب بہتر ہے"۔    منہ کی طرف اٹھتا ہاتھ احد نے روک کر جواب دیا۔
"اپنا دھیان رکھا کرو"۔    سمعان صاحب نے تاکید کی۔
"جی پاپا"۔    بولتے ہی احد نے لقمہ لیا۔
"کیا ہوا حرا بیٹا؟ تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟"۔    سامنے کی قطار میں' شہریار کے ساتھ بیٹھی حرا کو راضیہ بیگم نے مخاطب کیا جو کھانا چھوڑ کر بیٹھ گئی تھی۔
"پتہ نہیں آنٹی وہ۔۔۔"۔    منہ پہ ہاتھ رکھے حرا وہاں سے اٹھ کر روم کی طرف دوڑی۔
"شہریار بیٹا جا کے دیکھو حرا کی طبیعت زیادہ خراب نا ہو"۔    راضیہ بیگم نے مقابل بیٹھے شہریار کو تنبیہ کی۔
"جی ماما"۔   شہریار نشست سے اٹھتے روم کی جانب بڑھا۔
"حرا تم ٹھیک ہو؟"۔    شہریار جب روم میں داخل ہوا حرا اس دم واش روم سے نکل کر اس طرف آئی تھی۔
"پتہ نہیں شہریار جیسے ہی کھانا کھایا وومٹنگ آ گئی"۔    حرا نڈھال بیڈ پہ بیٹھ گئی تھی۔
"چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں"۔    شہریار اسکے قریب آیا۔
"نہیں شہریار میں ٹھیک ہوں ویسے بھی رات کافی ہو گئی ہے"۔    حرا نے اسے تسلی دیتے کہا۔
"ٹھیک ہے ابھی قہوہ بنوا لو بلکہ میں ماما کو بول کر آتا ہوں تم آرام کرو ہم کل صبح ہوتے ہی ڈاکٹر کے پاس جائیں گے"۔    حرا کو تاکید کرتے شہریار روم سے نکل کھڑا ہوا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"حرا تم اندر جا کے چیک اپ کرواو میں باہر ہی تمھارا انتظار کر رہا ہوں"۔     شہریار حرا کو ڈاکٹر کے کیبن میں چھوڑ کر باہر نصب کیئے بینچ پہ بیٹھ گیا تھا۔
پندرہ منٹ گزرے تو شہریار بینچ سے اٹھتا ہوسپٹل سے باہر کی جانب چل پڑا۔
"شہریار بیٹا"۔     سفید لباس میں زیب تن بزرگ نے شہریار کو ہوسپٹل سے باہر آتا دیکھ حیرت میں اسکی جانب قدم اٹھائے۔
"ارے پیر صاحب آپ' یہاں؟"۔     شہریار حیران ہوا۔
"ہاں بیٹا یہاں سے گزر رہا تھا تمھیں یہاں دیکھا تو رک گیا' سب خیریت ہے؟ احد کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟"۔    بزرگ نے تصدیق چاہی۔
"سب خیریت ہے پیر صاحب اور آپ احد کا کیوں پوچھ رہے ہیں؟ میرا مطلب ہے احد تو بالکل ٹھیک ہے"۔     شہریار متعجب ہوا۔
"اللہ سب خیر ہی رکھے' اچھا بیٹا یہ تعویذ احد کو دے دینا اور اسے سختی سے تاکید کرنا کہ اسے دائیں بازو پہ باندھ لے کبھی اسے خود سے جدا نا کرے۔ اپنے روم میں ایک قرآن پاک رکھ لے اور ہو سکے تو ہمہ وقت با وضو رہے"۔    ہاتھ میں پکڑا تعویذ شہریار کے سپرد کرتے بزرگ نے سختی سے فہمائش کی۔
"مگر پیر صاحب احد کو ہوا کیا ہے؟ یہ تعویذ کس لیئے ہے؟"۔    شہریار کی سمجھ سے اوپر کی بات تھی جو بزرگ نے مصلحتا خاموشی میں دبا دی۔
"اچھا بیٹا میں اب چلتا ہوں' خدا حافظ"۔ 
اجازت طلب کرتے بزرگ نے اپنی منزل کی طرف قدم اٹھانا شروع کیئے۔
پیر عنایت حسین شاہ' اللہ کے نیک بندوں میں سے ایک تھے جو لوگوں کے مسائل اور پریشانیوں کا حل حساب کے ذریعہ نکال کر لوگوں کو اچھے برے کی تمیز سکھاتے تھے۔ سمعان صاحب کی فیملی کے ہر فرد کو پیر صاحب بخوبی جانتے تھے۔ 
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

   0
0 Comments